آئیں اپنی شادیوں سے بری رسومات کو ختم کرکے زنا کو مشکل، نکاح کو آسان بنائیں
آئیں اپنی شادیوں سے
بری رسومات کو ختم کرکے زنا کو مشکل، نکاح کو آسان بنائیں“!
پیارے آقا کریم علیہ
التحیۃ والتسلیم نے فرمایا
الدنیا کلھا متاع و خیر متاع
الدنیا المراۃ الصالحۃ۔
دنیا
کے اندر نظر آنے والی ہر چیز دنیا کا سازو سامان ھے اور دنیا کے اس سارے ساز و
سامان میں سے بہترین ساز و سامان نیک عورت پاکیزہ بیوی ھے۔
دنیاوی رشتوں
میں سے رشتہ زوجیت ایک مقدس ،انتہائ اہمیت کا حامل ، اور سکون کا باعث رشتہ ھے۔دنیاوی
رشتوں میں سے کوئی رشتہ ابھی وجود میں نہ آیا تھا ،نہ باپ کا رشتہ،نہ ماں کا رشتہ،
نہ بہن کا رشتہ اور نہ بھائی کا رشتہ تھا،اللہ رب العالمین نے صرف حضرت آدم علیہ
السلام کو تخلیق فرمایا تھا پھر آپ کی تنہائیت کو ختم کرنے کی خاطر آپ کی پسلی سے
حضرت حوا کو پیدا فرمایا اور آپ کی اپنائیت کی خاطر رشتہ زوجیت قائم فرمایا، گویا
کہ جب دنیاوی رشتوں میں سے کوئی بھی رشتہ وجود میں نہ آیاتھا تو اس وقت سب سے پہلے
وجود میں آنے والا رشتہ ،رشتہ زوجیت تھا۔
مگر افسوس ہوتا ھے آج
اپنے معاشرے کے حالات کا مشاہدہ کر کے کہ اس مقدس رشتے کو قائم کرنا کتنا مشکل بنا
دیا گیا ھے۔
تاجدارِ انبیاء خاتم
النبیین نے فرمایا کہ زنا کو مشکل اور
نکاح کو آسان بناؤ ،،،
مگر
آج الٹی گنگا بہہ رہی ھے۔ہماری بہنیں اور بیٹیاں اپنی دہلیز پہ بیٹھی بوڑھی ہو رہی
ھیں اور ہماری نوجوان نسل گلیوں ، بازاروں ،اور پارکوں میں اپنی جوانی کے قیمتی
لمحات ضائع کرتے ہوۓ نظر آتے ھیں۔اس سب کی بنیادی وجہ میرے نزدیک ہمارا دین اسلام
سے ناطہ توڑ کر ہندوانہ اور جاہلانہ شیطانی رسموں کے ساتھ منسلک ہوجانا ھے۔آج نکاح
کو ہم نے رسومات کی وجہ سے اتنا مشکل بنا دیا ھے کہ دس دس سال ہم ایک نکاح کرنے کی
تیاری کرتے رہتے ھیں۔اور پھر آگے کے دس سال قرض ادا کرنے میں لگ جاتے ھیں۔
منگنی کا تصور!
کیا آج جو ہمارے ہاں
منگنی کا طریقہ کار رائج ہو چکا ھے کیا اسلام اس چیز کی اس طرح اجازت دیتا ھے کہ
آج ایک بیچاری غریب لڑکی کو دیکھنے کی خاطر لڑکے کی بہنیں ،ماں باپ ، بھابھیاں سب
جا کے اس مزدور کے گھر حملہ کر دیں۔پھر واپس آکے ہر ایک کی اپنی منہ بولی کہ ایسی تھی
ویسی تھی پسند نہیں آئی۔تمہیں کس نے اختیار دیا ھے اللہ رب العالمین کی بنائی ہوئی چیز پہ اعتراض
کرنے کا؟
کیا حضرت خدیجہ کا
حضور نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کی بارگاہ میں پیغام نکاح بھیجنا کسی کو یاد
نہیں!صرف اپنے ایک غلام کو پیغام نکاح کے لیے بھیجا گیا۔
“عیدی کی رسم“
پھر جب کوئی لڑکی
پسند آجاتی ھے تو ہر عید پہ اس کی عیدی فرض سمجھ کے دی جاتی ھے اگر نہ دی تو لوگ کیا
کہیں گے ، اور پھر عیدی کا ساماں خرید کر پورے محلے میں دکھایا جاتا ھے مگر کبھی
ذہن میں یہ خیال نہ آیا کہ جس محلے کے اندر یہ سامان دکھایا جا رہا ھے اسی محلے کی
کتنی لڑکیاں بھی اسی امید کے اندر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ھیں۔
اسلام نے تو ھمیں
رشتے داروں کے ہاں تحفے بھیجنے کا درس دیا تھا تاکہ آپس میں محبت بڑھے۔
اور یہاں سب کچھ
دکھاوے کی خاطر کیا جا رہا ھے۔
“شادی کی تاریخ متعین کرنا“
کیا شادی کی تاریخ
گھر کے دو افراد جا کر متعین نہیں کر سکتے تھے کہ جس کے لیے پورا خاندان آٹھ کے
چلا گیا اور جس مسکین کے گھر گئے ھیں وہ بیچارا اس پریشانی میں مرے جا رہا ھے کہ یہ
جو سارا قرض اٹھاتا چلا جا رہا ہوں کیسے ادا کروں گا۔
“رسم مہندی “
ہمارے معاشرے کے اندر
جو بدتمیزی رسم مہندی میں پھیلائی جاتی ھے دل خون کے آنسو روتا ھے کہ جس عورت کو
اونچی آواز میں قرآن پڑھنے کی اجازت نہیں وہی عورت بغیر پردہ کے بازار کے اندر
اونچی آواز میں گانے گاتی نظر آتی ھے۔
“رسم جاگا“
بارات سے ایک رات
پہلے کی یہ رسم بھی طوفان بدتمیزی پھیلاتی ہوئ نظر آتی ھے لاکھوں روپے اسی رسم کے
اندر ہیجڑوں کے اوپر لٹائے جاتے ھیں اور ساری ساری رات محلے والوں کو بے سکون کیا
جاتا ھے۔اور دولہے کو مہندی لگانے جیسے نہ جانے کتنے اور حرام کیے جاتے ھیں۔
“رسم بارات“
حکم شریعت تو یہ تھا
کہ جتنے بندوں کو دعوت دی جاۓ اتنے بندے ہی دعوت پہ حاضر ہوں مگر یہاں پہ لوگ سیلاب
کی طرح امڈ پڑتے ھیں اور دلہن کے گھر میں تباہی مچا دی جاتی ھے۔
اب زرا غور کیجئے کہ
پہلے دن یعنی منگنی سے لیکر بارات کے دن تک بیچاری دلہن کا باپ قرض اٹھا اٹھا کے
لڑکے والوں کو مرغے کھلاتا رہا اور لڑکے والے کیا صرف مٹھائی لے کر جاتے رھے۔اس
مزدور باپ کا کیا یہی قصور ھے کہ اس نے بیٹی کو جنم دیا تھا کیا یہ سب خرچے کم تھے
کہ موجودہ دور میں رائج جہیز جیسی لعنت کا طوق بھی اسی کے گلے میں لٹکا دیا گیا
تاکہ کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کے پیدا ہونے پہ خوشیوں کی بجاۓ غم مناۓ۔
آج ہندو بھی اپنے
مندر میں اپنا نکاح کروانے کو باعث عبادت سمجھتا ھے اور دونوں فیملیوں کو اپنے
مندر میں جمع کرتا ھے مگر افسوس کہ آج ھمیں مسجدوں میں نکاح کرنا یاد ہی نہ رہا۔
تو بہرحال ایسی بہت سی
رسمیں ہم نے اپنا لی ھیں جن کی وجہ سے آج نکاح کرنا مشکل ہوگیا ھے ۔
ورنہ نکاح تو ایجاب
وقبول ، گواہوں کی موجودگی ، حق مہر اور شب زفاف کے بعد ولیمہ سے بھی نکاح ہی ھے ۔
یہ ساری شیطانی فضول
خرچیاں ہم نے خود ہی اپنے گلے میں ڈالی ھیں۔
کس کس زخم کا علاج کریں
یہاں تو جگر ہی سارا
چھلنی ھے۔