استحقاق آزادی
استحقاق آزادی“
فان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوا ھا۔۔
اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا
چاہو تو شمار نہیں کر سکتے ۔
آج کائنات کے اندر جس طرف نظر دوڑائیں تو
ہر طرف اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نظر آتی ھیں۔سورج کی تابانی،چاند کی چاندنی ،ستاروں
کی کہکشانی ، دریاؤں کی روانی، پھولوں کی مہک ، پرندوں کی چہک ، کائنات کی رنگینیاں
، آسمانوں کو چھوتی ہوئی پہاڑوں کی بلندیاں ، میدانوں کی وسعتیں ،سمندورں کی گہرائیاں
الغرض کائنات کی ہر چیز نعمت نظر آتی ھے ۔۔
مگر آج سے 74 سال پہلے اللہ تعالیٰ نے جو
نعمت عطا فرمائ اگر وہ نعمت نہ ہوتی تو
اتنی ساری نعمتیں ھمیں بے فائدہ نظر آتی اور وہ نعمت آزادی کی نعمت ھے۔
آزادی ہر فرد اور قوم کا بنیادی حق ھے اور یہ
کسی انسان کا عطا کردہ نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا عطا کردہ ھے ۔آقاو مولائ کی
ذات صرف وہی ذات ھے ۔
سروری زیبا فقط اسی ذات بے ہمتا کی
ھے
حکمران ھے اک وہی باقی بتان آزری
اللہ رب العالمین نے جب کسی رسول اور نبی
کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کسی انسان کو اپنا غلام بنائیں تو آج کے کسی دنیاوی
حکمران کو کس طرح یہ حق دیا جا سکتا ھے کہ انسانوں کو غلام بنائیں۔ مگر عجیب بات یہ
ھے کہ آج اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد جنم لینے والے بچے کو نہ صرف آزادی کے مطالبے
کرنے پڑتے ھیں بلکہ خاک و خون کے کئی سمندر عبور کرنے پڑتے ھیں۔
آج
کشمیر کی حالت ہمارے سامنے موجود ھے۔کہ وہ کس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوۓ ھیں۔اور
ہم یہ نعرے لگاتے ھیں کہ کشمیر ہماری جنت ھے ،،،جنت میں تو مسلمان رہا کرتے ھیں
کافروں نے کیسے قبضہ کر رکھا ھے۔آج کشمیری پھر کسی محمد بن قاسم اور کیپٹن بلال
ظفر کے انتظار میں ھیں جو اپنی جان قربان کرکے ہزاروں لوگوں کی جانوں کو جلا بخش
جائیں اور امت مسلمہ کو یہ سبق دے جائیں کہ اپنے وطن کے لوگ تو ایک طرف رھے اپنے
وطن کی
مٹی سے بھی محبت کرنا کیونکہ اسی مٹی سے ہماری تخلیق کے لیے خمیر اٹھایا گیا اور
مرنے کے بعد اسی مٹی کے نیچے ہم نے جانا ھے اور یہی مٹی ھے جو جو ھمیں اپنے اوپر
رھنے دے رہی ھے اور ھمیں ہماری خوراک بھی مہیا کر رہی ھے۔
خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو۔