اعداء مصطفیٰ و دفاع خدا
اعداء مصطفیٰ و دفاع خدا“
محب
کو اپنے محبوب سے اتنی محبت ہوتی ھے کہ وہ اپنے محبوب کا گلہ شکوہ سننا گوارہ نہیں
کرتا اور محب یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی بھی اس کے محبوب کے عیبوں کو اس کے
سامنے بیان کرے بلکہ محب کو تو محبوب کے اندر کوئی عیب نظر ہی نہیں آتا ،
آئیے اس محبوب کی بات کریں جو ھے ہی بے عیب،
جس کی شان وراء الوراء ھے کہ تمام انبیاء مقتدی بن کے پیچھے کھڑے ھیں اور وہ محبوب
امام بن کے آگے کھڑا ھے ، وہ محبوب کہ جس کو معصوم بنایا گیا ، وہ محبوب جس کے لیے
پوری کائنات سجائ گئ وہ محبوب جو مطلوب کائنات و مقصود کائنات ھے جس کی وجہ سے
چاند کو چاندنی ملی ، سورج کو تابانی ملی ، ستاروں کو درخشانی ملی ، دریاؤں کو
روانی ملی ، وہ محبوب کہ جس کی ایک انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوجاۓ تو اس
محبوب کی شان کے خلاف جب بھی کسی نے زبان درازی یا دست درازی کی کوشش کی تو محب نے
اپنے محبوب کا ایسے دفاع فرمایا کہ قیامت تک کے لیے یاد رکھا جائے گا،
جب مشرکین مکہ نے مصطفیٰ کی زبان سے رب کا قرآن سنا تو عرب کے لوگ چونکہ فصیح
و بلیغ شاعر تھے وہ دل کے اندر تو یقین نہیں رکھتے تھے کہ یہ شاعری ھے مگر باقی
لوگوں کو مصطفیٰ کا گرویدہ ھونے سے بچانے کے لیے کہنے لگے کہ یہ تو شاعر ھے اور
شاعری بیان کر رہا ھے ، رب العالمین نے قرآن اتارا فرمایا،،
وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ ان ھو الا ذکر و قرآن
۔
اور مشرکین مکہ نے جب لوگوں کو مصطفیٰ کا گرویدہ ھوتے دیکھا اور رکانہ جیسا
عرب کا مشہور پہلوان مصطفیٰ سے تین بار شکست کھانے کے بعد اور انگلی کے ایک اشارے
سے درخت کو اپنی طرف آتے ھوے دیکھ کر بھی کہنے لگا یہ تو جادوگر ھیں ، محب کو یہ
بات پسند نہ آئی پھر قرآن اتارا ،
کذلک ما آتی الذین من قبلھم من رسول آلا قالوا ساحر
او مجنون
باہر سے آنے والے قافلوں کو حضور کی صحبت میں
بیٹھنے سے بچانے کے لیے اعداء مصطفیٰ نے انہیں کہا کہ وہ تو مجنوں ھے ، اس کے پاس
نہ جانا ، رب نے پھر فرمایا
وما انت بنعمۃ ربک بمجنون۔
اور حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے
یکے بعد دیگرے تین بیٹوں نے وصال فرمایا تو ابولہب نے زبان دراز فرمائ اور نعوذ
باللہ آپ کو ابتر یعنی بے نسل کہا تو رب نے پھر قرآن نازل فرمایا اور فرمایا محبوب
تیرا دشن بے نسل ھے۔
انا آعطیناک الکوثر ۔ فصل لربک وانحر ۔ ان شانئک ھو
الابتر۔
اور کچھ دن وحی نازل نہ ھوئی فترت وحی کا
زمانہ آیا تو مشرکین مکہ نے زبانیں دراز فرمائیں کہ آپ کے رب نے آپ کو اکیلا چھوڑ
دیا تو رب نے پھر فرمایا اے محبوب ہم نے آپ کو اکیلا نہ چھوڑا اور نہ ہی بھلایا
ما ودعک ربک و ما قلی۔
اور رب العالمین کو پتہ تھا کہ مسیلمہ کذاب
، اسود عنسی
اور مرزا قادیانی جیسے دجال کذاب بھی آئیں
گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے رب العالمین نے پہلے ہی فرما دیا
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول
اللّٰہ و خاتم النبیین ۔
اب زرا غور طلب بات یہ ھے کہ رب العالمین
نے خاتم النبیین فرمایا ، آخر النبیین کیوں نہ فرمایا
اس لیے کہ آخر جب خ کے زیر کے ساتھ ہوتو اس
کا مطلب ھے آخری لیکن جب خ کے اوپر زبر کے ساتھ ھو تو اس کا مطلب ہوتا ھے دوسرا ،
تو کہیں کوئی پڑھتے ہوۓ خ کی زیر کے بجاۓ زبر کے ساتھ نہ پڑھ لے ، اور دشمن مصطفیٰ
کوئ اور ہی معنی مراد لینے نہ لگ جائے
اور دوسری وجہ یہ ھے کہ آخر کا مطلب ہوتا
ھے آب تک جو آۓ ھیں ان میں آخری تھا اس کے بعد بھی کسی کے آنے کا امکان ھے ۔
مگر رب العالمین نے یہ
احتمالات ہی خاتم النبیین فرماکر ختم کردئیے کہ ختم کا معنیٰ ھے مہر لگانا پس جب
جس جگہ پہ مہر لگ جائے تو اس کا مطلب یہ
ھے کہ اس کے اندر اب نہ کمی کی جا سکتی ھے اورنہ ہی زیادتی کی جاسکتی ھے میرے آقا کے اس کائنات
میں تشریف لاتے ہی مہر لگا دی گئ کہ اب نہ کوئی نبی آ سکتا ھے اور نہ ہی کوئ نبی
کم کیا جا سکتا ھے۔
الغرض بے شمار ایسی مثالیں قرآن سے ملتی ھیں
کہ محب یعنی رب العالمین نے اپنے محبوب یعنی رحمۃ للعالمین کا کیسے دفاع فرمایا
اور دفاع بھی ایسے فرمایا کہ قیامت تو آ سکتی ھے مگر ان آیات کو قرآن سے نہیں
نکالا جا سکتا۔