سب سے بڑے صابر کون
سب سے بڑے صابر کون؟(حصہ دوم)
وہ ماں کہ جس کا جی بھر کے دیدار بھی نہیں
کیا تھا اور ٹھیک طرح سے ماں کا پیار بھی نہیں دیکھا تھا ان کی جدائی کے بعد آپ
اپنے شفیق دادا حضرت عبدالمطلب کی کفالت میں آۓ ، اور آپ کے دادا نے آپ کی کفالت
جس طرح کی تو آسمان کے سورج چاند اور ستاروں کو بھی رشک آیا ہوگا۔جب پیارے آقا کریم
علیہ التحیۃ والتسلیم کی ولادت مبارک ہوئی تو حضرت آمنہ نے آپ کو اپنی گود میں
اٹھایا سینے سے لگایا اور پیشانی مبارک چوم کر آنکھوں سے آنسوؤں کو بہایا تو حضرت
عبدالمطلب نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا کہ آنکھوں سے آنسو کیوں آ رھے ھیں حضرت آمنہ
نے کہا کہ کاش آج میرے سرتاج اس بزم کائنات میں تشریف فرما ہوتے اور اپنے چاند
سے بڑھ کر حسین بیٹے کے رخ انور پہ بوسہ دیتے
اور آسمان سے اترتی ہوئی حوروں اور فرشتوں کی قطاروں اور مشرق و مغرب کے پرندوں کو
آپس میں مبارکبادیں دیتے ہوۓ مشاہدہ فرماتے تو کیسا حسیں سماں ہوتا مگر آج میرا بیٹا
یتیم بن کے آیا ھے حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ میرے پوتے کو یتیم نہ کہنا بلکہ میرا
پوتا کائنات کے تمام یتیموں کا مآوی و ملجا بن کے در یتیم بن کے تشریف لایا ھے۔مگر
وہ وقت بھی آیا کہ جب آپ آٹھ سال کی عمر کو پہنچے تو اس شفیق دادا کے شفقت والے
ہاتھوں کے ساۓ سے بھی محروم ہونا پڑا ، وقت نے بھی کیا کیا دکھایا کہ جن ہستیوں نے
دکھوں غموں اور مصیبتوں کے وقت میں غموں کا مداوا کرنا تھا سب آہستہ آہستہ درد و
الم کا گہوارہ بنا کے جدا ھوتے گئے۔
اپنے
دادا کے بعد آپ علیہ الصلاۃ والسلام دل وجان سے فدا ہونے والے چچا حضرت ابو طالب
کے زیر کفالت آئے، پھر حضرت ابو طالب نے آپ کے ساتھ وفا داری، عشق و محبت، اور عزت
و احترام کی جو تاریخیں رقم کی قیامت تک کے لیے کوئی بھول نہ پاۓ گا ، دشمن دن کے
وقت حضور کے بستر مبارک کو دیکھ کہ جاتے مگر جب رات ہوتی تو حضرت ابو طالب حضور کے
بستر پہ اپنے بیٹوں کو سلا دیتے ، اور اس وقت تک خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی کھانا تناول نہ فرمانے دیتے جب تک حضور صلی
اللّٰہ علیہ وسلم دستر خوان پہ تشریف فرما نہ ہوتے ، پیارے آقا کریم علیہ التحیۃ
والتسلیم کو ایک لمحہ بھی اپنے آپ سے جدا نہ ھونے دیتے ، جب تک آپ زندہ رھے کسی بھی
کافر کی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ آپ پہ ہاتھ اٹھا سکے مگر وہ وقت بھی آیا کہ دکھوں اور
تکلیفوں کے ہر لمحہ میں ساتھ دینے والے چچا کی جدائی کو بھی برداشت کرنا پڑا مگر
صبر کا دامن پھر بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔
حضرت ابو طالب
(جو ہر دشمن کے سامنے حضور کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو جاتے ہر تیر اپنے سینے پہ
برداشت کر لیتے مگر اپنے بھتیجے کو آنچ بھی نہ آنے دیتے ۔)کی وفات کو 35 دن بھی نہ
گزرے تھے کہ آپ کی رفیقہ حیات جوصرف دل وجان سے فدا ہونے
والی نہ تھیں بلکہ اپنے سارے مال کو بھی آپ کے قدموں پہ نچھاور کرنے والی تھیں
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا بھی اس دار فانی سے چل بسیں ۔
اور حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہونے والے آپ کے بیٹے بھی جدا ہوۓ حتی کہ وہ
وقت بھی آ پہنچا کہ اپنے لخت جگر نور نظر حضرت ابراھیم کو بھی اپنی گود میں لیا
ہوا ھے آخری سانسیں چل رہی ھیں اور آپ کی چشمان اقدس سے آنسو بھی بہہ رھے ھیں مگر
پھر بھی امت کو صبر کا درس دے رھے ھیں۔
ہمارے آقا کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے کس
کس مقام پہ صبر کے دئیے ہوئے درس کو آپ کو سناؤں میری زندگی تو ختم ہوسکتی ھے مگر
صبر کے دئیے ہوۓ درس ختم نہ ہوں بس مجھے تو اتنا پتہ ھے کہ جس کے نواسے کے صبر کو
بیان نہیں کیا جا سکتا اس کے نانا کہ جس سے صبر کرنا سیکھا تھا اس کا صبر کرنا کیسے
بیان کیا جا سکتا ھے۔