علم حدیث کی طرف توجہ کی ضرورت
علم حدیث کی طرف توجہ کی ضرورت
علماۓ کرام قرآن کی مثال درخت کی جڑ کے
ساتھ پیش کرتے ھیں کہ جس جڑ سے کچھ شاخیں نکلتی ھیں اور ایک پورا درخت بن جاتا ھے
اور اس
درخت کی ان شاخوں میں سے ایک شاخ علم حدیث کی ھے ،ایک شاخ علم فقہ کی ھے،ایک شاخ
علم تفسیر،ایک شاخ علم تاریخ ،ایک شاخ علم بلاغہ ،ایک شاخ علم سائنس کی ھے اور ایک
شاخ علم کلام ،ایک شاخ علم صرف اور ایک شاخ علم نحو و منطق وغیرہ کی ھے۔
گویا کہ معلوم ھوا کہ تمام علوم قرآن کی
شاخیں اور فروع ھیں اور ان کی اصل اور جڑ قرآن ھے۔
تو
آج کے دور کے اندر جس طرح قرآن کے دیگر علوم علم فقہ اور علم صرف و نحو کی طرف زیادہ
توجہ دی جاتی ھے قرآن کہ اس اہم علم ،علم حدیث کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جا رہی،جس
علم کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ محنت کی گئ ۔
آج اگر عیسائیوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کے فرامین و اقوال کے بارے میں پوچھا جاۓ تو بڑی مشکل سے دو اڈھائ سو فرامین ملیں
گے جن کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ انہی کے فرامین ھیں،مگر میرے
آقا کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کا ایک ایک قول ،ایک ایک عمل اور تقریر محفوظ ھے۔
آج اگر
محدثین کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ھوتا ھے کہ محدثین کرام نے ایک ایک
حدیث کو حاصل کرنے کے لیے کتنی محنتیں کیں اور کتنی مشقتوں اور تکلیفوں کا سامنا کیا،
حضرت ابن عباس کی زندگی کا مطالعہ کریں ،کہ
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ظاہری وصال کے وقت آپ کی عمر تقریبا تیرہ سال کے لگ
بھگ تھی ،آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت ابن ایک ایک حدیث کے علم کے
لیے ایک محدث کے پاس چل کے جاتے اور جب دروازے پہ پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاتے تو
جواب ملتا کہ آپ جس کو ملنے آۓ ھیں وہ تو آرام فرما ھیں آپ دھوپ میں کھڑے ھو کر ان
کا انتظار فرماتے پھر جب وہ محدث باہر تشریف لاتے تو آپ کو دیکھ کر پریشان و حیران
ھوکر عرض کرتے کہ ھمیں حکم فرماتے ہم حاضر ھو جاتے مگر حضرت ابن عباس جواب دیتے کہ
العلم یاتی لا یؤتی،کہ علم کے پاس آیا جاتا ھے نہ کہ علم کو بلایا جاتا ھے۔
ان کے علاوہ اور بھی بڑے بڑے محدث ھیں
جنہوں نے علم حدیث کے لیے بڑی منتیں کیں،حضرت امام مالک جس گھر میں رھتے تھے وہ
حضرت عمر فاروق کا گھر تھا اس گھر کے علاؤہ ایک اور اجرت کا گھر درس حدیث کے لیے
مختص کیا ھوا تھا ،
امام الحدیث حضرت ابو سفیان ثوری،امام زہری
،امام احمد بن حنبل وغیرہ بہت سے ایسے مدثین ھیں جن کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے
انسان کے رونگٹے کھڑے ھوجاتے ھیں۔
تو آج امت مسلمہ کو اس علم کی طرف آنا ھو
گا جس کے لیے اتنی محنیتں کی گئ اور تکلیفوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا ،
ورنہ وہ وقت دور نہیں کہ ہماری ملت ہر
نوجوان کے ذہن کے اندر ،قادیانیت ،پرویزیت اور غامدیت کی سوچ نظر آۓ گی۔
رب العالمین ھمیں ان فتنوں سے محفوظ فرماۓ۔