قربانی پہ اعتراضات اور فلسفہ قربانی
قربانی پہ اعتراضات اور فلسفہ قربانی
حصہ اول
اسلام ایک سچا ،جامع ،عالمگیر
،عدل و انصاف کا پیکر اور مکمل ضابطہ حیات کا دین ھے۔جس کو مٹانے کے لیے اسلام سے
ناواقف لوگ مختلف قسم کی سازشیں کرتے ھیں مگر ان کی سازشیں ہر بار ناکام رہ جاتی ھیں۔
ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر دین اسلام
سے نابلد لوگ یہ اعتراض کرتے ہوۓ نظر آتے ھیں کہ دین اسلام ظلم کا درس دیتا ھے اور
یہ سننے کو ملتا ھے کہ اسلام کیسا بے رحم
مذہب ھے کہ جس کے ماننے والے زندہ جانور کو بے رحمی سے قتل کر دیتے ھیں،زندہ جانور
کے گلے پہ چھری کو چلا کر حیوانیت کا ثبوت دیتے ھیں۔
تو ہم نے کہا
کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں عدل کا ایک عظیم نظام قائم فرمایا، شریعت محمدیہ
کے زریعے جہاں حقوق اللہ ور حقوق العباد کی تعلیم دی گئی ھے وہیں پہ حقوق حیوانیت
کی تعلیم بھی دی گئی ھے۔اسلام کہتا ھے کہ جانوروں پر بے جا سختی مت کرو بلکہ ان کو
راحت پہنچاؤ اور طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور جب سفر کرنے لگو تو سفر کے درمیان ان کو گھاس چرنے کی مہلت
دو اور ان کو ہانکتے ہوئے ڈنڈے نہ برساؤ بلکہ گالی بھی نہ دو، اور اپنی منزل پر
پہنچ کر ان کی زین علیحدہ کر دو ،
اور قربان ہونے والے
جانور کے بارے میں حکم دیتا ھے کہ ذبح کرنے سے پہلے پانی سے سیراب کرلو اور ذبح سے
پہلے چھری کو اچھی طرح تیز کرلو ، چھری جانور کے سامنے بھی تیز نہ کرو اور کسی بھی
جانور کو اس کی اولاد کے سامنے ذبح نہ کرو ، جانور کو نیچے لٹانے سے پہلے اس جگہ
سے پتھر وغیرہ ہٹاکر جگہ کو صاف کردو اور یہاں تک بھی بتایا کہ کن جانوروں کو کھڑا
کر کے ذبح کرو اور کن جانوروں کو لٹا کر ذبح کرو تاکہ انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف
نہ پہنچے اور آگے فرمایا کہ جانور کی چار رگوں کو کاٹ کر انہیں چھوڑ دو اس کی گردن
کو نہ اتارو تاکہ جانور کے دل اور دماغ کے درمیان رابطہ قائم رھے وگرنہ اس صورت میں
خون اندر رہ جاتا ھے اور بعض اوقات زہر بن جاتا ھے۔
اسلام جانور کے ساتھ
اتنے حسن سلوک کا درس دیتا ھے کہ مدینہ کی ایک متقیہ، صائمہ ،مصلیہ اور تہجد گزار
عورت کو ایک چھوٹی سی بلی کی فکر نہ کرنے پہ جہنمی ہونے کا فیصلہ دیتا ھے اور بنی
اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت کو ایک پیاسے
کتے کو پانی پلانے پہ جنتی بنا دیتا ھے اور آپ کہتے ھیں اسلام ظلم اور بے رحمی کا
درس دیتا ھے۔ لھذا آپ اپنے اس اعتراض کو اپنے ہی پاس رکھو۔
اور دوسرا یہ اعتراض کیا جاتا ھے کہ قربانی
پہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کردئیے جاتے ھیں اگر یہی پیسے غرباء ،یتامی اور مساکین
پہ خرچ کیے جائیں تو معاشرے سے غربت ختم ہوجاۓ اور کوئ غریب مسکین نہ رھے۔
تو جواب یہ ھے کہ اسلام نے غرباء و مساکین
کو بھی بے سہارا نہیں چھوڑا بلکہ ان کی غربت اور مسکینی کو ختم کرنے کے لیے زکوۃ
،صدقات و خیرات کا انتظام کیا اور قربانی بھی حقیقت میں ان غرباء کی امداد کا ہی ایک
ذریعہ ھے ،
آج اگر آپ قربانی کے موقع پہ اس طرح کے
اعتراضات اٹھاتے ھیں تو کل حج کے بارے میں کہیں گے کہ حج پہ جانے سے بہتر ھے کہ کسی
بیوہ کی مدد کردیں ، مساجد اور مدارس کی تعمیر سے بہتر ھے کہ غرباء کے سروں کو
ڈھانپ دیا جاۓ ؟
تو
عرض یہ ھے کہ ایک عبادت کو دوسری عبادت کے ساتھ بدلنے کی باتیں کیوں کرتے ہو ، یہ
ہماری شریعت ھے نفسانی خواہشات نہیں ھیں اور اس طرح کیوں نہیں کہتے کہ آپنے ایک بیٹے
کے شادی کے موقع پہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجاۓ کسی غریب کی بیٹی کی چپکے سے مدد
کر دو تاکہ وہ اپنے باپ کی دہلیز پہ بیٹھی بوڑھی نہ ہوتی رھے اور اپنی کروڑوں روپے
کی کوٹھی کاریں اور بنگلوں کی بجاۓ کسی مسکین کے سر کو ڈھانپ دیا جاے اور عید کی
رات میں لاکھوں روپے کی شاپنگ کے بجاے کسی یتیم کو عید کے دن کٹورا لے کر مانگنے
سے بچا لیا جاۓ یہ تبادلہ دنیاوی معاملات میں کیوں نظر نہیں آتا ھے آپ کو۔؟
ہمارا
مذہب ہمارا دین ہر شعبے کے اندر رھنے والے ہر انسان کو مکمل ضابطہ حیات عطا کرتا
ھے تم اپنے فلسفے اپنے پاس رکھو۔۔۔۔۔۔