ہندوستان پر محمد بن قاسم سے پہلے کئے جانے والے حملے:
خلافتِ راشدہ کے زمانے میں سندھ پر پہلا حملہ:
13ھ میں مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ مسلمانوں کے خلیفہ چنے گئے. حضرت عمرؓ نے 15ھ میں عثمان بن ابی وقاص ثقفیؓ کو بحرین اور عمان کا گورنر مقرر کیا. عثمان بن ابی وقاصؓ نے اپنے بھائی مغیرہ کی سرداری میں ایک لشکر تیار کرکے سندھ پر حملہ کے لیے بھیجا. اس وقت سندھ میں راجاداہر کے باپ راجہ چچ کی حکومت تھی اور اس کو حکومت کرتے ہوئے پینتیس سال گزرچکے تھے۔ جب یہ لشکر دیبل پہنچا تو اس وقت دیوائج کا بیٹا سامہ چچ کی طرف سے دیبل کا حاکم تھا۔ سامہ نے قلعہ دیبل سے نکل کر اس لشکر کا مقابلہ کیا، مغیرہ بھی بڑی بہادری سے لڑے اور وہیں شہید ہوئے۔ یہ سندھ پر پہلا حملہ تھا. اور یہ حملہ امیر المومنین حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی اجازت کے بغیر کیا گیا تھا. اس کے بعد آپ نے انہیں منع فرما دیا.
پھر جب 23ھ میں عرب مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا، اس وقت مکران کا راجا راسل تھا. راسل نے سندھ کے راجا سے مدد مانگی۔ سندھ کے راجا نے اس کو مدد دی. دریائے ہلمذ پر مسلمانوں کو فتح ہوئی اس حملے میں “حکم تغلبی” مسلمانوں کے سردار تھے.
حکم نے مکران میں فتح حاصل کرنے کے بعد فتح کی خوش خبری اور بہت سا مال جو اس لڑائی میں حاصل ہوا تھا، صَحَار عَبدی کے ہاتھ حضرت عمرؓ کے پاس بھیجا۔ جب صحار عبدی حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے تو حضرت عمرؓ نے ان سے مکران کا حال پوچھا. انہوں نے کہا امیر المومنینؓ وہاں پانی کی بہت کمی ہے. وہاں کے لوگ ڈاکو ہیں. اگر تھوڑی فوج جائے تو لوٹ لی جائے اور زیادہ فوج جائے تو بھوکی مرجائے۔ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ بات سن کر مسکراتے ہوئے کہا تم شاعری کرتے ہو یا وہاں کے حالات بیان کررہے ہو۔ صحار نے جواب دیا, امیر المومنینؓ! جو کچھ میں نے عرض کیا اس میں ذرہ برابر جھوٹ نہیں۔ میں نے وہاں جو کچھ دیکھا ہے وہ صحیح صحیح عرض کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ خطرناک حالات سن کر حکم دیا کہ اب اسلامی فوجیں آگے نہ بڑھیں۔ یہ حضرت عمرؓ کی خلافت کا آخری سال تھا جس کے چند دن بعد حضرت عمرؓ نے 24ھ میں شہادت پائی۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد محرم 24ھ میں حضرت عثمانؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔ ان کے زمانے میں عبید اللہ بن معمر تمیمی 29ھ میں مکران کے حاکم ہوئے، جو بڑی بہادری سے دوسرے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان کی سرحد تک پہنچ گئے۔
حضرت عثمانؓ ہی کے زمانے میں حضرت عبدالرحمن سمرہ نے زریخ اور کیچ کے درمیان جو علاقے تھے ان پر قبضہ کرلیا۔ یہ علاقے اس وقت بلوچستان سے ملے ہوئے تھے۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد 35ھ میں حضرت علیؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہوئے۔ آپ نے 38ھ میں ثاغر بن داعوار کو سرحدی حملے کے لیے روانہ کیا۔ وہ علاقوں کو فتح کرتے ہوئے کوہ قیقان تک پہنچے، قیقان کو آج قلات کہا جاتا ہے۔ قیقان کے رہنے والوں سے سخت لڑائی ہوئی۔ آخر قیقان کے رہنے والوں نے شکست کھائی اور مسلمانوں نے بڑی تعداد میں جنگی قیدی پکڑے۔
بلازری کے قول کے مطابق 39ھ میں حارث بن سمرہ عبدی کو حضرت علیؓ نے ہندوستان کے محاذ پر سپہ سالار بناکر بھیجا۔ انہوں نے اس مہم میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ یہ ابھی قیقان ہی میں تھے کہ 40ھ میں حضرت علیؓ نے شہادت پائی۔ آپؓ کی شہادت کے بعد حکومت کی باگ ڈور بنی اُمیہ کے ہاتھ آئی۔ خاندان بنی اُمیہ میں سب سے پہلے خلیفہ امیر معاویہؓ ہوئے۔
امیر معاویہؓ کے دور میں حملے:
خلافت راشدہ کا زمانہ ختم ہونے کے بعد 41ھ میں بنی امیہ کے پہلے خلیفہ امیر معاویہؓ مقرر ہوئے۔
44ھ میں امیر معاویہؓ نے ہلب بن ابی صغرہ کو مکران کا گورنر مقرر کیا جو اس علاقے کو فتح کرتے ہوئے اہواز تک جا پہنچے، 46ھ میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
43ھ میں امیر معاویہؓ نے عبدﷲ بن سوار عبدی کو چار ہزار فوج دے کر سندھ کا حاکم مقرر کرکے بھیجا اور ان سے کہا سندھ میں ایک پہاڑ ہے جس کو قیقان (قلات) کہتے ہیں۔ وہاں کے گھوڑے بہت شاندار اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ تم سے پہلے یہ گھوڑے مال غنیمت میں ہمارے پاس آچکے ہیں۔ وہاں کے لوگ بہت ہی سرکش ہیں۔ میں تمہیں اس لیے بھیج رہا ہوں کہ تم اس ملک کا انتظام درست کرو۔
عبدﷲ بن سوار عبدی اپنے لشکر کے ساتھ مکران پہنچے۔ وہ کئی مہینے تک مکران میں رہے۔ وہاں سے قیقان (قلات) پہنچے۔ انہوں نے قلات والوں کو شکست دی، اور بہت سا مال غنیمت اور قلاتی گھوڑے لے کر وہ امیر معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر دوبارہ عبدﷲ بن سوار دمشق سے قیقان آئے۔ قیقان آتے ہی ان کا ترکوں کی ایک جماعت سے مقابلہ ہوا اور وہ 49ھ میں شہید ہوگئے۔
جب عبدﷲ بن سوار کی شہادت کی خبر دمشق پہنچی وہاں سے 49ھ میں سنان بن سلمہ الہذلی کو عبدﷲ بن سوار کی جگہ مکران کا حاکم بناکر بھیجا گیا۔ وہ دو سال ایک ماہ مکران میں رہے۔ پھر کسی وجہ سے وہ 51ھ میں اپنی خدمت سے الگ کردیئے گئے۔ سنان بن سلمہ کی علیحدگی کے بعد امیر معاویہؓ نے راشد بن عمرو جدیدی کو سرحدی حاکم بناکر بھیجا۔ جب یہ مکران پہنچے تو سنان نے ان کا استقبال کیا اور سندھ کے سارے حالات صحیح صحیح ان کو بتائے۔ راشد نے فوجی تیاری کرکے سندھ پر حملہ کرکے جہاد کیا اور بہت سے سرکشوں کو نیچا دکھایا اور قیقان والوں سے دو سال کا خراج جو انہوں نے نہیں دیا تھا وصول کیا۔
ایک سال بعد جب راشد سیستان کے راستے واپس ہورہے تھے۔ مندرا اور بھرج کے پہاڑوں کے درمیان وہاں کی پہاڑی قوم مید، جن کی تعداد پچاس ہزار تھی اچانک آپہنچی اور راشد کو گھیرلیا۔ راشد بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے رہے آخر اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد سنان بن سلمہ نے جو ان کے ساتھ تھے فوجی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی اور قوم ’مید‘ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مرکزی حکومت نے 53ھ میں دوبارہ سنان بن سلمہ کو مکران کی حکومت پر بحال کردیا۔ سنان نے اپنے تجربے اور قابلیت سے بہت سے علاقے فتح کیے۔ آخر 56ھ میں مقام بدھا میں دشمنوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
سنان کی شہادت کے بعد 61ھ میں ابو لاشعت منذر بن جارود حاکم مقرر ہوئے۔ یہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ مقام پورالی (حدود تو ران) میں بیمار ہوئے اور وہیں وفات پائی۔
مرکزی حکومت نے منذر کی جگہ ان کے لڑکے حکم بن منذر کو 63ھ میں سرحد کا حاکم بنا کر بھیجا۔ یہ چھ مہینے تک مکران کے حاکم رہے۔ چھ ماہ کے بعد مرکزی حکومت نے کسی وجہ سے ان کو واپس بلالیا۔ ازاں بعد 64ھ میں عبدالملک بن مردان نے حری بن حری باہلی کو مکران کا گورنر مقرر کیا۔ انہوں نے اس ملک کے بہت سے شہر فتح کیے۔ 68ھ میں ان کا تبادلہ ہوگیا۔
حری بن حری باہلی کے بعد عہد حکومت میں ایک اور صاحب مکران کے گورنر ہوکر آئے۔ ان کا نام کسی تاریخ میں نہیں ملتا لیکن یہ 68ھ سے 75ھ تک مکران کے گورنر رہے پھر یا تو ان کا تبادلہ ہوگیا یا شہید کیے گئے۔
محمد علافی اور اسکے 500 باغی مسلمان:
65ھ میں عبدالملک خاندان بنی امیہ کا پانچواں خلیفہ ہوا، 73ھ میں اس نے مشرقی ملکوں کا اعلیٰ حاکم حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا. حجاج بن یوسف نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی معید بن اسلم کلابی کو مکران اور سندھ کا حاکم بنا کر بھیجا. اسی زمانے میں ایک عرب سردار محمد علافی جس کا حال راجا رن مل کے حالات میں گزر چکا ہے. بھاگ کر عمان کے راستے سے سندھ پہنچا اور مکران کی سرحد پر رہنے لگا. سعید بن اسلم جب مکران کے حاکم ہوکر آئے تو انہوں نے صفوی بن خلاف کو جو علافیوں کا رشتہ دار تھا، کسی جرم پر قتل کرادیا. علافی خاندان کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ سعید کے دشمن ہوگیء اور انہوں نے ایک موقع پر 80ھ میں سعید کو قتل کرکے مکران پر قبضہ کرلیا۔
اس کی خبر جب حجاج کو ہوئی تو اسے بہت غصہ آیا، اس نے علافی قوم کے سردار سلیمان کو جو اس وقت عرب میں تھا، قید کرکے قتل کردیا اور فوراً مجاعہ بن سعر تمیمی کو 85ء میں مکران کا حاکم بنا کر بھیجا. علافی خاندان کو جب یہ معلوم ہوا کہ مجاعہ حجاج کی طرف سے مکران کا حاکم ہوکر آرہا ہے، وہ فوراً ہی مکران خالی کرکے سندھ بھاگ گئے۔ راجا داہر نے ان کو پناہ دی اور یہ راجا داہر کے علاقے میں رہنے لگے. محمد علافی ان کا سردار تھا. محمد علافی نے راجا کے احسان کا بدلہ چکانے کے لیئے اپنے جنگجوؤں کے ستاھ راجا کی فوج کو فتح بھی دلوائی جہاں راجا داہر کی شکست یقینی تھی. یہ جنگ ہمسائیہ ریاست کے راجہ رن کے ساتھ تھی. اس کے پاس ہاتھی بھی تھے.
ولید بن عبدالملک کا دور اور سندھ پر مکمل حملہ:
ولید بن عبدالمک خاندان بنوامیہ کا چھٹا خلیفہ تھا. یہ 86ھ (706ء) میں خلیفہ ہوا. اگرچہ یہ اپنے باپ دادا کی طرح علم میں کمال نہیں رکھتا تھا لیکن خلافت کے طور طریقوں کو خوب جانتا تھا. ولید عبدالملک اموی خاندان کے خلفاء میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد ایک اچھا خلیفہ سمجھا جاتا ہے اس نے اپنے ملک کی حالت سدھارنے اور دوسرے ملکوں کو فتح کرنے میں خاص شہرت حاصل کی. اسے خوش قسمتی سے قتیبہ بن مسلم، موسی بن نصیر محمد بن قاسم اور محمد بن مسلمہ جیسے بہادر جرنیل مل گئے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت کو چاروں طرف پھیلا دیا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں چین سے لے کر یورپ تک ملادیں.
سندھ پر فوجیں روانہ کرنے کا سلسلہ اگرچہ خلافت راشدہ کے زمانے ہی سے جاری تھا. ہر خلیفہ کے زمانے میں مسلمانوں نے سندھ کے کچھ نہ کچھ علاقے فتح کیے مگر یہ فتوحات سندھ کے سرحدی علاقوں سے آگے نہ بڑھی تھیں اور اس سے پہلے کبھی مسلمانوں کے دل میں اسے پورا فتح کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا تھا لیکن خلیفہ ولید کے زمانے میں کچھ ایسی باتیں پیش آئیں کہ حجاج جو اس زمانے میں مشرقی ملکوں کا حاکم اعلیٰ تھا اسے سندھ کو مستقل طور پر فتح کرنے کا خیال پیدا ہوا. وہ وجوہات کیا تھیں؟ ان کا ذکر لازمی کیا جائے گا. سندھ پر حجاج نے محمد بن قاسم کو بھیجنے سے پہلے دو سپہ سالار سندھ بھیجے تھے. دونوں تجربہ کار اور منجھے ہوئے سالار تھے مگر دیبل کی فوج کے سامنے انہیں شکست ہوئی. پھر جب محمد بن قاسم کو بھیجا گیا حالانہ آپ بہت کم عمر اور نا تجربہ کار تھے. پھر بھی پورا سندھ فتح کر ڈالا.
(محمد بن قاسم کے متعلق تفصیلی پوسٹ کی جائے گی)