منکرین حدیث سے چند سوالات
منکرین حدیث سے چند سوالات“
پرویزیت اور غامدیت جیسی شیطانی نظر و فکر
کے حامل لوگ جو آج امت مسلمہ کو خدا کے اس نور سے دور کرنے کی کوشش کر رھے ھیں کہ
جس نور سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور گمراہ
لوگ راہ ہدایت پہ آگئے اور فوز عظیم کی خوشخبری پاگئے۔
اور اپنے نفس اور مفاد کی خاطر حدیث مصطفیٰ
صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہوۓ نظر آتے ھیں کہ آج ہم سنت مصطفیٰ کو اس لیے
نہیں مانتے کیونکہ یہ سرور کائنات کی ظاہری حیات میں تدوین نہیں کی گئیں اور جن
راویوں کے زریعے ہم تک پہنچی ان راویوں نے
اپنی مرضی سے باتیں گھڑ کر اپنے نبی کی طرف منسوب کردیں۔
ہ مارا ایک
سوال ھے کہ آپ یہ تو مانتے ھیں کہ قرآن اللّٰہ رب العالمین کا کلام ھے ،یہ بتائیے
کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ قرآن اللّٰہ کا کلام ھے،اور اگر قرآن اللّٰہ کا کلام ھے
تو کیا یہ وہی قرآن ھے جو کہ اللہ کا کلام ھے ، نعوذ باللہ کیا آپ پر وحی نازل ہوئی
کہ یہی قرآن ہی اللہ کا کلام ھے ؟
اور کیا قرآن کو کسی نے نہیں لکھا ؟ اگر نہیں
لکھا تو آپ تک کیسے پہنچا؟
تو جواب یہی ملتا ھے کہ یہ قرآن ھمیں ان عظیم
ہستیوں کے زریعے پہنچا جن ہستیوں کے زریعے مصطفیٰ کا فرمان پہنچا ،اگر آپ تدوین حدیث
اور ان عظیم ہستیوں کی صداقت پہ یقین نہیں رکھتے تو قرآن کی تدوین اور اس کی حقانیت
کا انکار کیوں نہیں کرتے حالانکہ یہ بھی ھمیں ان ہستیوں کے زریعے پہنچا جن ہستیوں
کے زریعے سنت مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پہنچی ،اگرچہ حضور نے نزول قرآن کے وقت
باقاعدہ طور پہ اپنی احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا تاکہ کہیں قرآن اور حدیث
دونوں خلط ملط نہ ہو جائیں اور پھر بعد میں ان کے درمیان تمییز کرنا ہی مشکل ہو جاۓ
،جب نزول قرآن مکمل ہوچکا تو آپ نے اپنی احادیث لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائ، کتنے
ایسے خطوط جو کہ آپ نے دوسرے ممالک کے غیر مسلموں کی طرف دین اسلام کی دعوت کے لیے
لکھے وہ آج بھی ویسے ہی موجود ھیں ۔
اور دوسرا سوال یہ
ھے کہ آج اگر منکرین سنت سے سوال کیا جاۓ کہ سجدہ کی ہیئت کیا ھے کتنے اعضاء کے
ساتھ سجدہ کیا جاتا ھے تو وہ بھی جواب یہ دیتے ھیں کہ سات اعضاء کے ساتھ کیا جاتا
ھے ،قرآن پاک کی کوئ ایک آیت ھمیں دکھا دو
جس میں کہا گیا ہوکہ سجدہ ان سات اعضاء کے ساتھ کیا جاتا ھے
نہیں پیش کرسکتے کیو نکہ ھمیں سجدہ کی یہ ہیئت
حدیث مصطفی امرت ان اسجد علی سبعۃ اعضاء سے معلوم ہو رہی ھے ،
اور اسی طرح قرآن کی کوئ ایک آیت ایسی دکھا
دو جس میں یہ کہا گیا ھو کہ رکوع کے اندر قرآت نہیں کرنی ،
نہیں پیش کرسکتے کیونکہ یہ بھی ھمیں حدیث
مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھیت ان اقرء القرآن راکعا و ساجدا
سے معلوم ہو رہا ھے ۔
تو معلوم ہوا کہ منکر حدیث بھی قرآن کو
سمجھنے کے لیے حدیث مصطفیٰ کا سہارا لے رہا ھے بس سادہ لوح مسلمانوں کو سنت مصطفیٰ
سے دور کرنے اور اپنی مرضی سے قرآن کی تشریح و تفسیر کرنے کے لیے اس طرح کہ غلیظ خیال
مسلمانوں کے دلوں میں ڈال رہا ھے۔