چند باتیں مدعیان تصوف کے بارے میں
چند باتیں مدعیان تصوف کے بارے میں“
تصوف دین کا وہ شعبہ ھے جس کا موضوع تزکیہ
قلب ھے۔یعنی دل کو ہر قسم کی بیماریوں(حسد،
کینہ،بغض،عداوت،نفرت،برے خیالات،توہمات)سے پاک کرنےاور ہر برائی سے دور
رہنے کانام تصوف ھے۔اور تزکیہ قلب ہی ہر نیکی کی بنیاد ھے ۔
معاشرے کے اندر
نگاہ دوڑائی جاۓ تو معلوم ہوتا ھے کہ جن لوگوں نے یقین کی دولت بانٹی اور مخلوق
خدا کے سینوں کو محبت خدا ، محبت مصطفیٰ اور نور توحید سے منور کیا وہ یا تو اصحاب
تصوف تھے یا پھر ان سے فیض حاصل کرنے والے تھے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ مرور وقت کے ساتھ
حالات تبدیل ہوۓ زمانہ بدل گیا اور صوفیائے کرام کی مسندوں پہ ایسے لوگ براجمان ہوۓ
جوکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پجاری تھے (آلا ماشاء اللّٰہ)پھر وہاں سے یقین کے بجاۓ
بے یقینی کی پیدا ہونے لگے۔
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ھیں کسی مرد راہ داں کے لیے
یہ ایسے لوگ ھیں کہ جن کو دین کے بنیادی
ضروریات اور ضروری مسائل تو معلوم نہیں مگر اپنی ساری توجہات کو لایعنی چیزوں کی
طرف مرکوز کر کے رکھا اور عوام کو طرح طرح کے مسائل میں الجھاۓ رکھا کہ جن کے بارے
میں گفتگو کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں مثلا براق کا رنگ کیسا تھا ، رفرف کی جسامت
کتنی تھی ، حضرت حلیمہ کی اونٹنی کی قد کتنی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
اورکچھ تو ایسے لوگ بھی ھیں جنہوں نے صوفیاء
کا لباس اوڑھ کر شریعت کے مخالف کام کرکے
اپنے آباؤ اجداد کا نام بھی مٹی میں ملانے کی کوششیں کر ڈالی۔
تصوف تو عاجزی اور انکساری کا درس دیتا ھے
مگر مدعیان تصوف اپنے آپ کو سجدے بھی کرواتے ہوۓ نظر آۓ اور اپنے آپ کو اس قدر
قابل اطاعت سمجھ لیا کہ ان کے ہر حکم کو اس طرح سمجھا گیا کہ جس طرح شریعت کا حکم
ہوتا ھے۔
صوفیوں کے پیشوا علی المرتضیٰ کو بھی کسی غیر
محرم کی طرف نظر اٹھانے کی اجازت نہ تھی مگر آج کے جاہل اور جھوٹے صوفیاء غیر محرم
عورتوں سے بغیر پردہ کے میل ملاپ کرتے ہوے بھی نظر آۓ حتی کہ غیر محرم عورتوں سے
معانقہ کرتے ہوۓ بھی نظر آۓ اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت کرتے ہوۓ بھی نظر آۓ۔
اور ایسے ہی لوگ سجادہ نشینی پہ اس لیے
براجمان ہوۓ کہ ہمارے مرید زیادہ ہوں گے، ہمارے مرید فلاں عہدوں پر فائز ہوں گے تو
ھمیں فلاں فلاں ایوانوں تک رسائی حاصل ہو جائے گی، مرید منشیات کا کام کرتا رہا ،
مرید نماز نہیں پڑھتا تھا ، مرید سود خور تھا ، مرید رشوت خور تھا ، مرید شراب نوش
تھا کبھی ان چیزوں کی طرف نظر نہ پڑی مگر مرید کی بھاری جیب پہ نظر ضرور پڑتی رہی
، مرید چاہے جیسی حالت میں رھے میری جیبیں
تو پیسوں سے بھارتی رھیں۔
اور مرید جہالت کی انتہاء تک پہنچا کہ خدائی
اختیارات بھی اسے سونپ بیٹھا ، ذوق نے شیخ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فورا سر کو
جھکا دیا۔
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نےسیدہ
زہرا بتول رضی اللّٰہ عنھا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا میرا جی تو چاہتا ھے
آپ کی مرقد منور کا طواف کروں اور اس پر سجدے نچھاور کروں لیکن مجھے قانون شریعت
اس چیز سے روکتا ھے۔
میں اپنے ذوق کی پیروی نہیں کرتا بلکہ
قانون شریعت کی پیروی کرتا ہوں۔
مالک کریم ھمیں فکر اقبال کو سمجھنے کی توفیق
عطا فرمائے۔۔۔