Articlesاسلامک آرٹیکلز

 

اسلام قربانی کا نام ھے

AVvXsEjRe6WtVIPw0YcZEkoS3vJwpXV45BI SXkIDv4DefmWKkTuM2zHrmkbtjoPJhor Ue2hoBjWWFFL3KinbG0FuTFcMmnxyvPU84Fw2wtBlglCLVq


                                تاریخ اسلام کا
مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ روز اول سے اسلام کی آبیاری و حفاظت مسلمانوں نے
اپنے قلب و جگر کے خون سے کی ھے آج مسلمانوں کی مسلمانوں پہ ظلم کی داستان دیکھ کے
پندرہ سو سال پہلے کا زمانہ یاد آیا کہ جب کافروں سے مسلمانوں نے ظلم و جبر کے
پہاڑ برداشت کرکے تاریخ رقم کی تھی کہ ستم گر ادھر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر
آزمائیں۔

                             آج مسلمانوں کے
حضور کی عزت و ناموس کی خاطر مر مٹنے کے جذبے کو دیکھ کر،اور آج لبیک یارسول
اللّٰہ کے نعرے کو بلند کرنے کی خاطر اپنی جان ،مال اولاد اور عزت کی پرواہ کے بغیر
گولیاں سینوں پہ کھاتے ھوے دیکھ کر مجھے ابوبکر صدیق کا حرم شریف میں بلند آواز سے
قرآن کی تلاوت کی وجہ سے گھسیٹ گھسیٹ کر بے ہوش ہو جانا یاد آیا ، آج حضرت عثمان
کا کچے بدبودار چمڑے میں لپٹ کر عرب کی دھوپ میں ظلم و ستم برداشت کرنا نظر آیا ،

                                                         
آج حضرت سعد کا( اپنی اس ماں کو جس نے بیٹے کو حضور کا نام چھوڑ نے کی خاطر
کچھ دنوں تک کچھ بھی نہ کھانے کی دھمکیاں دیں)یہ کہنا کہ اگر تیری سو جانیں ہوتی
اور ہر جان ایک ایک کر کے بدن سے نکلے تب بھی اپنا دین نہیں چھوڑوں گا ، یہ کہنا یاد
آیا ،حضرت بلال کو گلے میں رسے لپیٹ کر آواراہ کتوں کا گلیوں میں گھسیٹنا یاد آیا،
آج حضرت بلال کی والدہ حضرت حمامہ کو آگ کے گرم انگاروں کہ جس کی حرارت سے کچاگوشت
بھی بھن جاۓ ،ان انگاروں پہ گھسیٹا جانا یاد آیا،آج حضرت ابو فکیہہ کا کوئلوں کی
طرح دہکتی ریت پہ پیٹ پہ پتھر رکھوا کر ظلم و ستم کو برداشت کرنا یاد آیا،

                                          حضرت
زنیرہ کی ابو جہل سے ماریں کھا کھا کر آنکھوں کی بصارت کا جانا یاد آیا، اور حضرت
لطیفہ کا ظلم وستم برداشت کر کر کے حضرت عمر (اس وقت اسلام نہیں قبول کیا تھا)کو یہ
کہنا کہ اے عمر اگر تم اسلام نہ لاۓ تو میرا رب تمہیں بھی ایسے عذاب میں مبتلا کرے
گا ، کہنا یاد آیا،آج حضرت خباب بن الارت کا گرم سرخ لوہوں کا سر پہ رکھوا کر تکلیف
کو برداشت کرنا یاد آیا اور آج حضرت عمار کا دہکتے انگاروں پہ جلایا جانا یاد آیا،اور
ان کی ماں حضرت سمیہ کا تیر کھا کر اسلام کی پہلی شہیدہ کا شہادت کے مرتبے پہ فائز
ہونا یاد آیا اور آپ کے والد حضرت یاسیر کا لوہے کی زرہیں پہن کر تپتے صحرا میں
گھسیٹا جانا یاد آیا،

                                               الغرض
ظلم و ستم کی کونسی صورت تھی جو مسلمانوں پہ نہ آزمائ گئی دونوں ٹانگوں سے باندھ
کر دو اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑا کر جسم کے ٹکڑے کیے گئے ،زندہ مسلمانوں کو
گڑھے کھود کر دفنایا گیا، زندہ مسلمانوں کے سروں پہ آرے چلائے گئے،  لوہے کی کنگھیوں سے مسلمانوں کی ہڈیوں سے گوشت
ادھیڑ لیا گیا مگر پھر بھی ان ظلم و ستم کے سامنے صبر و استقلال کے پہاڑ بن کے ڈٹے
رھے ،خود تو چلے گئے مگر دین اسلام کو ھمیشہ کے لیے غلبہ بخش گئے ، ہاتھ پاؤں کٹوا
گئے مگر اسلام کے پرچم کو ھمیشہ کے لیے لہرا کے گئے۔اور یہ پیغام دے کے گئے کہ آۓ
تھے جس کام کو وہ کام نہ بگڑے سر جاۓ تو جاۓ مگر اسلام نہ بگڑے۔

 

 

admin

My mission is to promote the love of our beloved prophet Hazrat Muhammad ﷺ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button